27 دسمبر 2025 - 18:40
مآخذ: ابنا
حاج قاسم سلیمانی محورِ مزاحمت کے معمار تھے: فلسطینی تجزیہ کار

فلسطین کے ممتاز وکیل اور سیاسی تجزیہ کار نے خطے میں سردار شہید حاج قاسم سلیمانی کے منفرد اور فیصلہ کن کردار پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سرحدوں سے ماورا ایک ایسی شخصیت تھے جنہیں بجا طور پر “محورِ مزاحمت کا معمار کہا جاتا ہے

اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، فلسطین کے ممتاز وکیل اور سیاسی تجزیہ کار نے خطے میں سردار شہید حاج قاسم سلیمانی کے منفرد اور فیصلہ کن کردار پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سرحدوں سے ماورا ایک ایسی شخصیت تھے جنہیں بجا طور پر “محورِ مزاحمت کا معمار کہا جاتا ہے، اور جن کی فکر، عملی موجودگی اور وراثت آج بھی مغربی ایشیا میں مزاحمت اور سلامتی کے معادلات پر اثرانداز ہو رہی ہے۔

 فلسطینی وکیل و سیاسی تجزیہ کار صالح ابو عزہ نے گفتگو میں کہا کہ قاسم سلیمانی مزاحمت کی صفوں میں سب سے نمایاں اور مرکزی شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی موجودگی اور اثرات ہر اس ملک تک پھیلے جہاں قبضے، بغاوت یا تکفیری دہشت گردی کا سامنا رہا۔

انہوں نے کہا کہ حاج قاسم سلیمانی ایک ایسی شخصیت تھے جو بغیر کسی استثنا کے تمام محاذوں پر عملی طور پر موجود رہے، اور اسی وجہ سے اسرائیل اور امریکا دونوں کی خصوصی توجہ کا مرکز بنے۔ یہ دونوں دشمن انہیں خطے میں اپنے تسلط اور نفوذ کے خلاف ایک مکمل اور منظم منصوبہ سمجھتے تھے۔

ابو عزہ کے مطابق، شہید سلیمانی مغربی ایشیا میں اس نام نہاد “تخلیقی انتشار” کے مقابلے میں استحکام کے بنیادی ستونوں میں سے ایک تھے، جسے امریکا اور صہیونی رژیم براہِ راست یا اپنے آلہ کاروں کے ذریعے فروغ دیتے رہے۔ انہوں نے عرب اور اسلامی خطے میں امن، سلامتی اور استحکام کی بحالی کے لیے اس منصوبے کو ناکام بنانے میں نمایاں اور گہرا کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ حاج قاسم سلیمانی کے بارے میں بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ہر میدان میں جنگ لڑی، ہر محاذ پر جہاد کیا، اور ان کی نگاہ ہمیشہ فلسطین اور بیت المقدس پر مرکوز رہی۔ فلسطینی عوام ان کے پاک ہاتھوں کو پہچانتے ہیں، اور فلسطینی قوم اور اس کی مزاحمت کے ساتھ ان کی عملی وابستگی خون سے لکھی گئی ہے۔ اسی بنیاد پر شہید کمانڈر اسماعیل ہنیہ نے انہیں “شہیدِ قدس” کا لقب دیا، جس کے بعد وہ اسی نام سے پہچانے جاتے ہیں۔

فلسطینی تجزیہ کار نے کہا کہ شہید سلیمانی نے ایک ایسے مکتبِ فکر کی بنیاد رکھی جس کا اثر نہ صرف ایران کے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی تک محدود رہا بلکہ فلسطین، اس کے گرد و نواح اور پورے مغربی ایشیا میں تمام مزاحمتی قوتوں تک پھیل گیا۔ ان کا مکتب استقامت اور پائیداری کا جامع مکتب ہے، جو زمین میں مضبوط میخ اور طوفانوں کے مقابل کھڑے پہاڑ کی مانند ہے۔

صالح ابو عزہ نے عراق اور شام میں داعش کے خلاف جنگ میں سردار سلیمانی کے کردار پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جب امریکا اور صہیونی رژیم کی حمایت سے عراق میں تکفیری لہر اٹھی تو حاج قاسم سلیمانی سب سے پہلے وہاں پہنچے۔ وہ مزاحمت کاروں اور مجاہدین کے شانہ بشانہ تمام محاذوں پر نمایاں طور پر موجود رہے۔

انہوں نے کہا کہ شام کا محاذ بھی ان کی توجہ سے اوجھل نہیں رہا، جہاں مغربی طاقتیں اسے محورِ مزاحمت سے نکال کر امریکی تسلط کے دائرے میں لانا چاہتی تھیں۔ اسی طرح لبنان اور غزہ کے محاذوں پر صہیونی رژیم کے خلاف جنگی کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور قیادت میں بھی حاج قاسم سلیمانی کی موجودگی واضح تھی۔

ان کے بقول، صہیونی منصوبہ ہمیشہ براہِ راست اسرائیلی ہاتھوں سے نہیں چلایا جاتا بلکہ ایسے آلہ کاروں کے ذریعے آگے بڑھایا جاتا ہے جن کا مقصد معاشروں کو تقسیم کرنا، فتنہ پھیلانا اور بحران زدہ ممالک کو ٹکڑوں میں بانٹنا ہوتا ہے۔ ایسے میں حاج قاسم سلیمانی کا کردار نمایاں ہو جاتا ہے، جنہوں نے اس منصوبے کو ناکام بنانے کا عزم کیا۔ بغداد اور دمشق کی تکفیری سرکشی اور نوآبادیاتی منصوبوں کے مقابل ڈٹ کر کھڑے رہنے میں ان کی حکمتِ عملی کا بنیادی کردار ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی مرکزی منصوبے کی ناکامی کے باعث امریکا اور اسرائیل نے انہیں شہید کرنے کا فیصلہ کیا، اس غلط فہمی میں کہ ان کی شہادت سے مزاحمت کا منصوبہ ختم ہو جائے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حاج قاسم کے ساتھی، شاگرد اور وارث آج بھی اپنے عہد پر قائم ہیں اور ان کے راستے سے پیچھے نہیں ہٹے۔

حاج قاسم سلیمانی: محورِ مزاحمت کے معمار

ابو عزہ نے مزید کہا کہ اگرچہ محورِ مزاحمت میں ہر محاذ پر مختلف قائدین اور علامتی شخصیات موجود ہیں، لیکن وہ واحد شخصیت جو تمام محاذوں کی مشترکہ علامت تھیں، وہ شہید کمانڈر حاج قاسم سلیمانی تھے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ اسی لیے انہیں “محورِ مزاحمت کا مہندس” کہنا حقیقت پسندانہ اور فطری ہے؛ وہ نہ صرف جنگی محاذوں کے معمار تھے بلکہ محورِ مزاحمت کے مجاہدین کے دلوں اور اذہان میں محمدی و علوی روح کے بھی معمار تھے۔ ان کی شہادت کو کئی سال گزرنے کے باوجود ان کی موجودگی آج بھی محسوس کی جاتی ہے۔ اگر پہلے ان کی جسمانی موجودگی سے فتوحات حاصل ہوتی تھیں، تو آج ان کے خون اور شہادت کے ذریعے کامیابیاں حاصل کی جا رہی ہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha